سوال:
کیا عاشورے کے دن اہل و عیال کے خرچ میں کشادگی کرنے والی روایت موضوع (گڑھی ہوئی) ہے؟
المستفتی:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب بعون الملک الوھاب:
اس کے جواب سے پہلے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ عمل جسے برسوں سے علما و عوام کرتے آرہے ہیں اسے اگر کوئی غلط کہے اور بڑے بڑے دعوے کرے تو اس کی بات پر ہرگز کان نہ دھریں، بلکہ کسی اہل سنت کے دار الافتا سے رابطے کرلیں، ان شاءاللہ حقیقت سامنے آ جائے گی۔
یہ حدیث پاک ہرگز موضوع نہیں، بلکہ مشہور و معروف احادیث مبارکہ کی متعدد کتابوں میں کئی جلیل القدر صحابہ کرام سے مروی ہے جن میں بعض روایات صحیح، بعض حسن اور بعض ضعیف ہیں، کئی صحابہ کرام و اسلاف نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ ہم نے خود آزمایا ہے، بزرگوں نے اسے مستحب جانا ہے.
اس حدیث پاک کو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے، مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا جسے ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستذکار میں صحیح سند سے بیان کیا، اس حدیث پاک کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے جسے طبرانی نے اپنی سند سے معجم طبرانی میں بیان کیا، [ج: 10، ص: 77، حدیث: 10007]
مزید شعب الایمان میں تو امام بیہقی نے اسے تین جلیل القدر صحابہ کرام سے روایت کیا:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
حضرت سعید الخدری رضی اللہ عنہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
پھر آگے ان تمام پر تبصرے کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ یہ احادیث مبارکہ ضعیف ہیں لیکن ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔
نیز اسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایت کی ہے جسے دارقطنی نے بیان کیا۔
ان احادیث مبارکہ کی سندی حیثیت دیکھنے کے لیے حافض ابو الفضل زین الدین العراقی الشافعی (المتوفی:806) کی کتاب
”التوسعة على العيال“
کا مطالعہ کریں۔
خود امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے اس روایت سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے، بلکہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ نے تمام روایات کو ایک ساتھ بیان کیا اور فرمایا کہ یہ صحیح ہے، ثابت ہے۔
فقہ حنفی کی معروف ترین کتاب در مختار میں ہے کہ یہ ثابت ہے نیز رد المحتار میں بھی مذکور ہے کہ اس کے روایت کرنے والے ثقہ ہیں۔
ہاں منہاجی اور روافض (شیعہ) اسے بغیر دلیل کے بس زور بیانی سے عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ موضوع ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، سب جھوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ”سب جھوٹ ہے“ کہنا ہی ایک بہت بڑا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے۔
کہ جہاں کسی خاص سند سے متعلق کسی محدث نے کہا کہ یہ ثابت نہیں، یا اس کی کوئی اصل نہیں، ان منہاجیوں نے اپنی طرف سے گڑھ دیا کہ اس موضوع پر کوئی حدیث ہی ثابت نہیں، اور اسی محدث پر الزام جڑ دیا، دعوی اتنا بڑا کیا مگر حوالوں کا کچھ اتا پتہ نہیں۔ اللہ پاک ایسے شریروں کے شر سے اہل سنت کو محفوظ فرمائے۔
اب حوالہ جات ملاحظہ کریں:
علامہ شمس الدین محمد بن مفلح حنبلی (المتوفی:763) لکھتے ہیں:
سأل ابن منصور أحمد: هل سمعت في الحديث "من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر السنة" "فقال: نعم، رواه سفيان بن عيينة عن جعفر الأحمر عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر وكان من أفضل أهل زمانه أنه بلغه أن من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته".
[الفروع، تصحيح الفروع، ج: 5، ص: 92]
ترجمہ: ابن منصور نے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث سنی ہے: ”جو اپنے اہل و عیال پر یوم عاشورہ میں خرچ کرے گا، اللہ اس پر سال بھر وسعت فرمائے گا؟“ تو آپ نے جواب دیا: ”ہاں، اسے سفیان بن عیینہ نے جعفر الاحمر سے روایت کیا ہے، جو ابراہیم بن محمد بن المنتشر سے روایت کرتے ہیں۔ اور وہ اپنے زمانے کے بہترین لوگوں میں سے تھے۔ انہیں یہ حدیث پہنچی کہ جو اپنے اہل و عیال پر یوم عاشورہ میں خرچ کرے گا، اللہ اس پر سال بھر وسعت فرمائے گا۔“
علامہ زین الدین عراقی علیہ الرحمہ (متوفی: 806) فرماتے ہیں:
فأما قوله: "أنه لم يستحب أحد من أئمة الإسلام توسيع النفقة على الأهل يوم عاشوراء" فليس كذلك. فقد قال بذلك: عمر بن الخطاب، وجابر بن عبد الله، ومحمد بن المنتشر، وابنه إبراهيم، وأبو الزبير، وشعبة، يحيى بن سعيد، وسفيان بن عيينة، وغيرهم من المتأخرين. [التوسعة علی العیال : صفحة:1]
ترجمہ: جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسلام کے کسی بھی امام نے یوم عاشورہ پر اہل خانہ پر خرچ کرنے کو مستحب نہیں سمجھا، تو ایسا نہیں ہے۔ اس بات کی حمایت حضرت عمر بن الخطاب، جابر بن عبد اللہ، محمد بن المنتشر، ان کے بیٹے ابراہیم، ابو الزبیر، شعبة، یحییٰ بن سعید، سفیان بن عیینہ، اور دیگر متاخرین نے بھی کی ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:
هو ثابت صحيح،
أخرجه البيهقي في الشعب من حديث أبي سعيد الخدري وأبي هريرة وابن مسعود وجابر، وقال: أسانيده كلها ضعيفة، ولكن إذا ضمّ بعضها إلى بعض أفاده قوة. وقال الحافظ أبو الفضل العراقي في أماليه: حديث أبي هريرة ورد من طرق
صحح بعضها الحافظ أبو الفضل بن ناصر،
وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان ابن أبي عبد الله عنه. وقال: سليمان مجهول وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات. قال:
فالحديث حسن على رأيه.
قال: وله طريق عن جابر
على شرط مسلم،
أخرجه ابن عبد البر في الاستذكار من رواية أبي الزبير عنه وهي أصح طرقه. قال: وقد ورد أيضا من حديث ابن عمر، أخرجه الدارقطني في الإفراد موقوفاً على عمر، أخرجه ابن عبد البر بسند جيد، ورواه في الشعب عن محمد بن المنتشر.
[الدرر المنتشرة،صفحه:186]
ترجمہ:
یہ صحیح ثابت ہے،
اسے بیہقی نے ”شعب الایمان“ میں ابو سعید خدری، ابو ہریرہ، ابن مسعود اور جابر رضی اللہ عنھم کے حدیث سے نقل کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں، لیکن جب
انہیں ملا دیا جائے تو یہ قوی ہو جاتی ہیں۔
حافظ ابو الفضل عراقی نے اپنی امالی میں کہا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مختلف اسناد سے آئی ہے جن میں سے بعض کو حافظ ابو الفضل بن ناصر نے
صحیح قرار دیا ہے،
اور ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں سلیمان بن ابو عبد اللہ کے سند سے ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا کہ سلیمان مجہول ہے
جب کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے۔
مزید فرماتے ہیں: ابن حبان کے مطابق
حدیث حسن ہے۔
یہ بھی کہا کہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی حدیث آئی ہے
جو امام مسلم کی شرط پر (صحیح) ہے،
ابن عبد البر نے ’’الاستذکار‘‘ میں ابو الزبیر کی روایت سے اسے نقل کیا ہے اور یہ اس کی سب سے
صحیح سند ہے۔
کہا کہ: یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی آئی ہے، اسے دارقطنی نے ”الافراد“ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت کیا ہے، ابن عبد البر نے اسے ایک اچھی سند سے نقل کیا ہے، اور ”شعب الایمان“ میں محمد بن المنتشر سے روایت کیا ہے۔
علامہ ابن عبد البر علیہ الرحمہ (متوفی: 463)کی ”الاستذکار“ میں ہے:
عن جابر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من وسع على نفسه وأهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. . . قال جابر جربناه فوجدناه كذلك. . . . وقال أبو الزبير وقال شعبة مثله۔۔۔قال يحيى بن سعيد جربنا ذلك فوجدناه حقا... قال سفيان جربنا ذلك فوجدناه كذلك.
[الاستذكار، كتاب الصيام، باب صوم يوم الفطر، ج: 3، ص: 331، دار الكتب العلمية بيروت)
یعنی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص عاشورے کے دن اپنے اور اپنے اہل پر (رزق میں) کشادگی کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لیے کشادگی فرما دے گا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ
ہم نے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا
اسی طرح کا قول حضرت ابو زبیر، شعبہ، یحیی بن سعید، سفیان کا ہے رحمہم اللہ تعالیٰ۔
در مختار میں ہے:
وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء
صحيح.
ترجمہ: عاشوراء کے دن توسعة علی العیال والی
حدیث صحیح ہے۔
اسی کے تحت رد المحتار میں علامہ سید محمد ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وأما حديث التوسعة فرواه
الثقات.
[رد المحتار، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم، ج: 2، ص: 419]
ترجمہ: توسعة علی العیال والی
حدیث کو ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے۔
میرے سامنے اس وقت کم و بیش 30 سے زائد کتابیں موجود ہیں، یہ تحریر چوں کہ سوشل میڈیا کے اعتبار سے لکھی گئی ہے اس لیے مختصر لکھی گئی ہے، ورنہ تو ایک رسالہ ہی مرتب ہوجائے۔ فلله الحمد
کتبہ:
محمد وسیم اکرم الرضوي، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ، ہند
7 محرم الحرام 1446ھ
14 جولائی 2024